میرزا رفیع سودا ۔حالات زندگی

حالاتِ زندگی:

محمد رفیع سودا 1713ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد شفیع بہ سلسلہ تجارت ہندوستان میں وارد ہوئے تھے۔ مرزا سودا کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی۔ چھوٹی عمر میں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔ پھر خان آرزو کے کہنے پر اردو میں طبع آزمائی شروع کی اور سلیمان قلی و داد سے اصلاح لی۔ بعد میں شاہ حاتم کے شاگرد ہوۓ اور تھوڑے عرصے میں درجہ کمال حاصل کر کے بڑے بڑے استادوں سے خراج تحسین وصول کیا، یہاں تک کہ شاہ عالم کو بھی شاگردی کا شوق ہوا اور اصلاح لینے لگے لیکن تھوڑے ہی عرصے میں زمانے نے پلٹا کھایا اور دہلی تباہ ہو گئی۔ مرہٹوں نے لوٹ مار شروع کر دی چنانچہ شعراء و ادباء اور شرفاء دہلی سے نکلنے لگے۔ ناچار سودا نے بھی فرخ آباد نواب بنگش کے یہاں آ کر قیام قیام کیا اور سترہ سال تک آسودگی سے یہیں زندگی بسر کی۔ اس وقت مرزا کی عمر ساٹھ سال کی تھی۔ نواب کی وفات پر مرزا لکھنؤ چلے آۓ۔ یہاں نواب شجاع الدولہ نے بڑی قدر کی۔ مگر معمولی سی بات پر ناراض ہو کر چلے آۓ اور پھر دربار نہ گئے۔ یہاں تک کہ آصف الدولہ مسند آراء ہوۓ۔ وہ مرزا پر بڑے مہربان تھے۔ چھ ہزار سالانہ وظیفہ مقرر ہوا اور ‘ملک الشعراء’ کا خطاب ملا۔
مرزا نے تقریباً ستر برس کی عمر میں 1781ء میں لکھنؤ میں وفات پائی۔

شاعری :

سودا اپنے زمانے کے مسلم الثبوت استاد اور زبان اردو کے بہت بڑے شاعر مانگ گئے ہیں۔ شاعری میں ان کا مرتبہ بلند ہے۔ وہ جملہ اصنافِ سخن پر قدرت کاملہ رکھتے تھے۔ قصائد اور ہجو گوئی میں ان کا ثانی نہیں۔ مرثیوں میں انہوں نے جدت و ندرت سے کام لے کر کمال حاصل کر لیا۔ ان کا کلام نازک خیالات، تازہ مضامین، بندش کی چستی، الفاظ و تراکیب کی ندرت، تشبیہات و استعارات کی جدت اور فصاحت و بلاغت کا بہترین نمونہ ہے۔
سودا نے شاعری کی صناعیوں سے طرح طرح کی لطافتیں اور نزاکتیں پیدا کیں اور فارسی کے بکثرت الفاظ و محاورات زبان اردو میں اس استادی سے داخل کیے کہ اس کے جزو ہو گئے۔ اسی طرح جو خدمات انہوں نے زبان اور شاعری کی کیں اس کا اعتراف ان کے معاصرین میر، میر حسن ، مصحفی وغیرہ نے بخوبی کیا ہے۔ اور ان کی قابلیت کی دل سے داد دی ہے۔ میر تو انہیں "سر آمد شعراۓ ہندی” کہتے ہیں۔
جو بنیادیں ولی اور حاتم نے قائم کی تھیں انہیں پر سودا نے اپنا شاندار ایوان شاعری تیار کیا۔انہوں نے قصیدہ و ہجو کو درجہ کمال تک پہنچایا۔ رام بابو سکسینہ تاریخ ادب اردو میں لکھتے ہیں کہ مرزا کو زبان پر پوری قدرت اور شعراء پر پوری حکومت حاصل تھی۔ مشکل سے مشکل زمینیں ان کے سامنے پانی تھیں۔ اور دقیق مضامین ان کے سامنے ہاتھ باندھے رہتے تھے۔ کلام سانچے میں ڈھلا ہوتا ہے۔ الفاظ کو اپنے مقام پر ایسا رکھتے تھے جیسے انگوٹھی میں نگینے جڑے جاتے ہیں۔ نئی نئی بحریں، نئے قافیے، ردیف ایسے کہ گئے ہیں کہ اب تک دل مزے لیتا ہے۔
تخیل کی بلندی و نزاکت، فکر کی نکتہ آفرینی و جدت میں سودا منفرد ہیں۔

کہتا ہے یہی خامہ کہ کس کس کو میں باندھوں
بادل سے چلے آتے ہیں مضمون میرے آگے

قصیدہ گوئی:

سودا کا اصل میدان قصیدہ ہے۔ سب نقادوں نے سودا کی قصیدہ نگاری کی تعریف کی ہے۔ امداد امام اثر نے درست کہا ہے کہ فارسی کے قصیدہ گو شعراء خاقانی و انوری سودا سے بلند ہیں لیکن اردو میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ سودا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے فارسی قصائد کے انداز میں اردو میں قصائد لکھے اور انہیں درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ ادبی لحاظ سے یہ قصائد بہت بلند پایا ہیں اور ساتھ ہی یہ قصائد تاریخی دستاویزات بھی ہیں ان کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ دہلی کے معاشرے پر کیا بیت رہی ہے۔
سودا جہاں مدح میں مہارت رکھتے ہیں وہاں ہجو میں بھی مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ان کی ہجویات میں مبالغہ اور ظرافت ہے۔

مرثیہ گوئی:
سودا نے مرثیہ میں بھی جدت طرازی کا ثبوت دیا ہے۔ اب تک مرثیوں کی شکل غزل جیسی تھی۔ انہوں نے اسے مربع، مخمس اور مسدس وغیرہ میں پیش کیا اور مرثیہ کو صرف مذہبی دائرے تک محدود نہ رکھا بل کہ مرقع نگاری، جذبات نگاری، منظر نگاری وغیرہ کا اضافہ کر کے ادب کے لیے خاص چیز بنا دی۔

غزل گوئی :
سودا کی غزل میں ان کا تخیل بلند اور بیان پر شکوہ ہے۔ لیکن مرزا کو غزل میں وہ مقبولیت اور شہرت نصیب نہ ہوئی جو میر کو ہوئی۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی غزلیں بھی سوز و گداز اور درد و اثر سے خالی نہیں ہیں۔ دراصل سودا کی گھمبیر آواز کے سامنے میر کی غم انگیز راگنی کچھ زیادہ دل ربا ثابت ہوئی۔ چناں چہ قصیدہ گوئی سودا کا دائرہ خاص سمجھی گئی اور غزل کا میدان میر کے ہاتھ رہا۔ "میر کا کلام آہ ہے اور مرزا کا کلام واہ” اس فیصلے کی وجہ سے سودا کی غزل پر کم توجہ دی گئی۔ حالانکہ خود کہتے ہیں۔

وہ جو کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوب
ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا
غزل میں سودا کے ہاں روایت کی پاس داری بھی ہے اور روایت شکنی بھی، تنہائی کا احساس، مٹتی ہوئی تہذیب کا خیال، تجربات کی دھوم دھام، نکھرے ہوۓ منظر کی دلکشی سودا کی غزل کے وہ عناصر ہیں جو اس کی شاعری کو آب و رنگ عطا کرتے ہیں۔

نمونہ کلام:
اس مرغ ناتواں کی صیاد کچھ خبر لے
جو چھوٹ کر قفس سے گلزار تک نہ پہنچا

سودا جو تیرا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانئیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا

دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

فکر معاش عشق بتاں یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top