لاہور شہر کی ایک کہانی

شہر لاہور کے بارے ایک کہانی مجھے بہت عزیز ہے اور وہ ہے بھگت سنگھ کی کہانی، جو برصغیر کا عظیم حریت پسند تھا۔ جو لاہور کی شکستہ گلیوں میں فخر سے سر بلند کر کے چلتا تھا اور جسے سینٹرل جیل میں، جو اب ڈھ چکی ہے، پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

جب میں چھوٹا تھا تو میں نے بھگت سنگھ کے بارے ایک عجیب کہانی سنی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ بھگت سنگھ کی روح شاہ جمال کے علاقے میں اور بابا شاہ جمال کے مزار کے گرد چکر لگاتی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے بزرگ صوفی کے ہیولے کو بھگت سنگھ سے باتیں کرتے دیکھا ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور وہ اس کا ازالہ کریں گے۔ میرے والد مرحوم خود باشعور انسان تھے، ادبی محافل کا حصہ رہتے، انہوں نے مجھے یہ کہانی سنائی اور ساتھ ہی کہہ دیتے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے مگر ایک دن سچ سامنے آ ہی گیا۔

شادمان اور شاہ جمال کا علاقہ کبھی "لہنا سنگھ دی چھاؤنی” کہلاتا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں لاہور کے تین سکھ حکمرانوں میں سے ایک سردار لہنا سنگھ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے برسر اقتدار آنے سے قبل حکومت کرتا تھا۔ لاہور پر تین سکھ سردار حکمران تھے جنہوں نے اپنا اپنا علاقہ بانٹ رکھا تھا۔ لہنا سنگھ نے انگریزوں کی پیش قدمی کو دریائے ستلج تک محدود رکھنے کی خاطر اپنی چھاؤنی بنا لی تھی۔ اس چھاؤنی کے عین بیچ ایک وسیع و عریض گھر تھا۔ عین اسی جگہ جہاں اب جیل روڈ سے آتے ہوئے دوسرا گول چکر واقع ہے۔ یہ گول چکر بابا شاہ جمال کے مزار سے نزدیک ترین ہے۔ صرف دو سو گز کی دوری پر صوفی بزرگ محو خرام ہیں۔ اسی بنا پر اس علاقے کا یہی نام بھی ہے۔

قصور کے خان صاحبان نے جو لاہور دربار کا تخت الٹنے کی سازش میں انگریزوں کے شریک تھے، انہوں نے ایک ایلچی سردار لہنا سنگھ کے پاس بھیجا تا کہ وہ رنجیت سنگھ کے قتل کی سازش کر سکیں۔ رنجیت سنگھ کی پیش قدمی لہنا سنگھ اور قصور میں بسے خانوں کے لئے مشترکہ خطرہ تھی۔ ایلچی سے کسی بات پر بحث ہو گئی اور اس کا سر قلم کر کے قصور بھیج دیا گیا۔ قصور کے غدار حکمران جو انگریزوں کے رفیق تھے وہ انگریزوں سے مل کر لہنا سنگھ سے بھڑ گئے۔

سکھ حکمران انگریزوں سے شکست کھا گئے۔ قصور کے خان اس عرصے میں غداری کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے قصور میں بابا بھلے شاہ کو تعصب کی بھینٹ چڑھانے کو ملا حضرات سے کام لیا اور لاہور میں انگریزوں کے مخبر بنے رہے۔ لہنا سنگھ کا گھر اور چھاؤنی مسمار کر دی گئی اور یہاں پنجاب کی سب سے بڑی سینٹرل جیل بنی۔ جہاں لہنا سنگھ کا گھر تھا اسے پھانسی گھاٹ بنا دیا گیا۔

سن 1928 میں جب انگریزوں سے نجات کی کوشش زور پکڑ رہی تھی تو لاہور میں جلوس کے دوران ایک معروف و مشہور حریت پسند لالہ لاجپت رائے کو پولیس نے لاٹھی چارج کے دوران سر پر لاٹھی مار کے جاں بحق کر دیا۔ اس واقعہ سے پورے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ایک اکیس سالہ انقلابی نوجوان جس کا نام بھگت سنگھ تھا وہ اٹھا اور اس نے انتقام لینے کا اعلان کیا۔ 17 نومبر 1928 کو اس نے گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہاسٹل کی پہلی منزل کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر پوزیشن لی اور وہیں سے اس نے ایک پولیس آفیسر کو مسٹر سکاٹ سمجھ کر فائر کھول دیا۔

مسٹر سکاٹ جو پولیس چیف تھا، اس کی بجائے اے ایس پی لاہور مسٹر سانڈرز کو گولی لگی اور اس کی موقع پر ہی ہلاکت ہو گئی۔ بھگت سنگھ فرار ہو کر کلکتہ چلا گیا۔ وہاں سے کچھ عرصے بعد آگرہ پہنچا جہاں اس نے آتشیں بم بنانے کا کارخانہ کھول لیا۔ بھگت سنگھ کی کارروائیوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں انگریز کے لئے پریشانیاں کھڑی کر دیں تھیں۔ ایک دن اسے قانون ساز اسمبلی پر بم پھینکتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔

جب بھگت سنگھ کو گرفتار کیا گیا اس نے چیخ چیخ کر کہا "انگریز اسے کبھی ہلاک نہیں کر سکتے”۔ بھگت سنگھ پر مقدمہ چلا اور 7 اکتوبر 1930 کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ انگریز اس نوجوان سے اس قدر خائف تھے کہ پورے ہندوستان میں کوئی مجسٹریٹ اس کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ آخرکار انہوں نے قصور کا رخ کیا جہاں انگریزوں کے پرانے وفادار مجسٹریٹ جس کا نام نواب احمد خان تھا جو بعد ازاں قصوری کہلایا، اس نے پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کر دیئے۔

23 مارچ 1931 کو بھگت سنگھ کو اس مقام پر پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا گیا جہاں کبھی لہنا سنگھ کی رہائش گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ اس روز پورے ہندوستان میں ایسا سوگ منایا گیا کہ پورے ملک میں ایک بھی چولہا نہ جلا تھا۔

اب اس کہانی میں عجب موڑ آتا ہے۔ 1975 میں ایک قاتلانہ حملے کی کوشش نواب احمد خان قصوری کے بیٹے پر کی جاتی ہے، وہی قدیم مجسٹریٹ جس نے بھگت سنگھ کو پھانسی دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ وہ خود عین اسی مقام پر بندوق کی گولی سے ہلاک ہو گیا جہاں برسوں پہلے بھگت سنگھ کو اسی مجسٹریٹ نے پھانسی لگوائی تھی۔ اس مشہور قتل کی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

ابا مرحوم کہتے تھے کہ اس واقع کے بعد انہیں یقین تو اب بھی نہیں مگر شائبہ سا ضرور اٹھا کہ شاید لوگوں نے بھگت سنگھ کی روح سے بابا شاہ جمال کی روح کو ملتے اور ناانصافی کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کرواتے دیکھا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top