لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور۔ سکھ کپٹن (دلچسپ واقعہ)

ماؤنٹ بیٹن اور سِکھ کیپٹن

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا آخری وائسرائے تھا‘ وہ 24 مارچ 1947 کو وائسرائے بنایا گیا اور 14 اگست تک متحدہ ہندوستان کا وائسرائے رہا‘ وہ پاکستان اور بھارت دونوں کا مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتا تھالیکن قائداعظم نے صاف انکار کر دیا جس کے بعد وہ بھارت کا گورنر جنرل بن گیا‘ وہ 21 جون 1948 تک یعنی آزادی کے سوا سال بعد تک انڈیا کا گورنر جنرل رہا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پرسنگا پور میں جاپانی فوج سےہتھیار ڈلوائے تھے‘اس دور میں ہندوستان کی فوج بھی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ماتحت ہوتی تھی‘ 1945 میں وہ ایک بار ایک سکھ رجمنٹ کے دورے پر گیا‘ دورے کے دوران اس نے سکھ فوجیوں سے خطاب کرنا تھا‘۔

تمام فوجی میدان میں جمع ہوئے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان سے خطاب شروع کیا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن انگریزی میں خطاب کر رہا تھا جبکہ ایک سکھ کیپٹن ساتھ ساتھ اس خطاب کا ترجمہ کر رہا تھا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خطاب کے دوران سکھ فوجیوں کو ایک طویل لطیفہ سنایا‘ وہ لطیفہ سنا کر خاموش ہوا تو سکھ ترجمان نے اس پورے لطیفے کا ایک فقرے میں ترجمہ کر دیا‘ سکھ ترجمان نے جوں ہی وہ فقرہ بولا میدان میں موجود تمام سکھ فوجیوں نے ایک بہت بڑا قہقہہ لگایا‘ اورخوب ہنسنا شروع کردیا۔ جوان ہنستے جا رہے تھے اور پیٹ پکڑ کر زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے‘لارڈ ماؤنٹ بیٹن ترجمان کی مہارت پر حیران رہ گیا‘ تقریب ختم ہوئی تو لارڈ نے ترجمان کو قریب بلایا‘ اس کی مہارت کی تعریف کی اور اس سے پوچھا ” میں نے کم و بیش دو ہزار لفظوں کا لطیفہ سنایا تھا لیکن تم نے اس کا سترہ لفظوں میں ترجمہ کیا اور سب لوگ ہنس پڑے‘ تم نے کیا ترجمہ کیا تھا“ سکھ فوجی نے فخر سے سینہ پھلایا اور سنجیدگی سے بوالا ” جناب میں نے جوانوں سے کہا صاحب نے لطیفہ سنایا ہے‘ میرا آرڈر ہے اب تم سب لوگ ڈیڑھ منٹ تک ہنس کر دکھاؤ“ سکھ رکا اوردوبارہ فخر سے بولا ” میں ان کا کپتان ہوں‘ میرا حکم تھا چنانچہ یہ لوگ ڈیڑھ منٹ تک ہنستے رہے“۔

دوستو! یہ بظاہر ایک ہنسنے والا واقعہ ہے لیکن اگر آپ اسے پاکستانی پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تو یہ واقعہ آپ کو بہت بڑا فلسفہ دکھائی دے گا کیونکہ 70 برسوں سے پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے فیصلے اسی قسم کے سکھ کیپٹن کر رہے ہیں اور ہم سب کے پاس ان ترجمانوں کے حکم پر ہنسنے اور رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘

ایک ترجمان نے کہا ہم نے مشرقی پاکستان چھوڑ دیا‘ اب تم لوگ رونا شروع کر دو‘ پوری قوم رونے لگی‘
دوسرا کپتان آیااس نے کہا مبارک ہو انگریزوں نے ہمیں ایک پاکستان دیا تھا ہم نے اسے دو پاکستان بنا دیا آؤ‘ اپنے بنگالی بھائیوں کو مبارک باد دیں‘ قوم مبارک باد دینے لگی‘
ایک کپتان نے کہا ہم نے افغانستان کو روس کا قبرستان بنانے کا فیصلہ کر لیا ہےتم سب روس مردہ باد کے نعرے لگاؤ‘ قوم نے نعرے لگانا شروع کر دیئے‘
ایک کپتان نے کہا افغان ہمارے بھائی ہیں‘ ہم نے پاک افغان بھائی بھائی کے نعرے لگائے‘ دوسرے نے کہا افغان ہمارے دشمن ہیں‘ ہم نے افغان ہمارے دشمن ہیں‘ افغان ہمارے دشمن ہیں کے نعرے لگا دیئے‘
ایک کپتان نے کہا امریکا کی جنگ ہماری جنگ ہے تم اسے اپنی جنگ کہو‘ قوم نے اس جنگ کو اپنی جنگ کہنا شروع کر دیا
پھر ہمارے ترجمان نے کہہ دیاطالبان کے وجود سے پوری دنیا کے امن کو خطرہ ہے اور ہم اس خطرے سے نبٹنے کےلئے کھڑے ہو گئے۔
وغیرہ وغیرہ
ہمارا اصل المیہ کیا ہے؟ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ ایک وہ جو پہلے سوچتے اور بعد میں کرتے ہیں‘ دوسرے وہ جو پہلے کرتے اور بعد میں سوچتے ہیں جبکہ دنیا میں لوگوں کی ایک تیسری قسم بھی موجود ہے‘ یہ وہ لوگ ہیں جو کچھ کرنے سے پہلے سوچتے ہیں اور نہ کرنے کے بعد‘ یہ لوگ بنیادی طور پر سوچتے ہی نہیں ہیں اور ان کے بارے میں تاریخ کا فیصلہ ہے یہ لوگ موہن جوداڑو‘ ہڑپہ اور احرام مصر کے دور کے لوگ ہیں اور یہ لوگ تاریخ سے سیکھنے کےلئے پیدا نہیں ہوئے۔
ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ رہے‘ ہم نے آج تک اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کی اور نہ ہی کرنے کےلئے تیار ہیں‘ اگر ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا ہوتا تو ہمیں یہ معلوم ہوتا زندگی کا بوجھ انسانوں اور قوموں نے اپنے کندھوں پر اٹھانا ہوتا ہے اور جو قوم اپنی زندگی کے بوجھ کےلئے دوسرے کندھوں کی طرف دیکھتی ہے اس قوم کو آثار قدیمہ اور تاریخ بنتے دیر نہیں لگتی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top