شہنشاہوں کے روحانی استاد ۔حضرت میاں میر

اُچے برج لاھور دے
جتھے بلدے چار مشال
ایتھے ای میاں میر دی ہستی
ایتھے ای شاہ جمال
اک پاسے دا داتا مالک
اک دا مادھو لال۔۔۔۔۔۔۔

حضرت میاں میر سیہون میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام میر محمد تھا۔ میاں میر 25 برس کی عمر میں سیہون سے نکلے اور لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ ان کی پرہیزگاری اور تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے دور کے مغل بادشاہ بھی ان کی سلامی بھرنے پر مجبور تھے۔ اکبر بادشاہ کے دور میں میاں میر نے سیہون کو خیر آباد کہا تھا، پھر جہانگیر کی ان سے عقیدت مندی رہی، شاہ جہاں تو اکثر ان کی سلامی پر آیا کرتے تھے۔ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ تو میاں میر کے روحانی اثر سے بھی فیض یاب ہوئے۔ دارا شکوہ کے لبرل خیالات کے پیچھے دراصل میاں میر کی تعلیمات کا ہی اثر تھا۔
لاہور میں میاں میر کی مزار کے اندر ایک تختی پر ان کا شجرہ نسب لکھا ہوا ہے، جس میں ان کی تاریخ پیدائش، والدہ ماجدہ، والد اور استاد کے نام اور ان کی لاہور آمد اور رحلت کی تاریخیں درج ہیں۔ اس شجرے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کی نسل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتی ہے۔
یہی نہیں میاں میر کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ سکھ مت کے 5 ویں گرو ارجن دیو کی ان سے اتنی محبت و عقیدت تھی کہ اکثر ان کے پاس آیا کرتے تھے، ارجن دیو نے ہی میاں میر سے متاثر ہو کر ان سے امرتسر میں ہری مندر صاحب کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی تھی، جو میاں میر نے قبول کی اور گولڈن ٹیمپل کی جگہ چار اینٹیں رکھ کر اس مذہبی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
یہ سکھ مت کے پیروکاروں کی محبت اور عقیدت کا تقاضا ہے کہ آج بھی لاہور میں میاں میر کے سالانہ عرس پر مسلمانوں کے ساتھ سکھ یاتری بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
میاں میر کا مقبرہ بھی گولڈن ٹیمپل کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے، چاروں اطراف مسجد، بیٹھک، مدرسہ اور قبرستان ہیں جبکہ بیچ میں مزار ہے۔
اس مقبرے کے احاطے میں کبوتروں کو دانہ ڈالنے کے لیے ایک مخصوص جگہ بنائی گئی ہے۔ درگاہ پر کبوتروں کی ایک بڑی تعداد اڑتی اور دانہ چگتی ہے، درگاہ پر آنے والے عقیدت مند بھی اپنے ساتھ دو چیزیں ضرور لاتے ہیںِ، درگاہ کے لیے پھول اور کبوتروں کے لیے دانہ۔
یہ وہ میاں میر ہیں جنہوں نے جہانگیر سے تحفے لینے سے انکار کیا تھا، شاہ جہاں میاں میر کی اجازت کے بغیر ان کی خانقاہ میں داخل نہیں ہو پاتا تھا۔ اس وقت کے مغل حکمران اور ان کے اہل و عیال میاں میر محمد کی پرہیزگاری اور تقویٰ کے معترف تھے۔ داراشکوہ کی کتاب سکینۃالاولیاء میں میاں میر کی زندگی، ملاقاتوں، عبادات، کرامات، اور ان کی رحلت کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔
دارا شکوہ نے جہانگیر اور میاں میر کی ملاقات کا قصہ بھی اپنی کتاب سکینتہ الااولیاء میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جہانگیر نے اپنے ایک پیامبر کے ذریعے میاں میر کو بلاوا بھیجا۔ جس پر میاں میر نے پہلے تو انکار کر دیا لیکن دوبارہ شہنشاہ جہانگیر نے درخواست کی کہ آپ سے ملنا ضروری ہے، اپنے غریب خانے پر ہم ملاقات کے منتظر رہیں گے۔
شہزادہ دارا شکوہ کی روایت کے مطابق جہانگیر بادشاہ نے جب تخلیے میں حضرت میاں میر کی گفتگو سنی تو ان کے دل پر بہت اثر ہوا اور میاں میر صاحب کو عرض کی کہ ’’میں ملک اور دنیا چھوڑ کر فقیر بننا چاہتا ہوں میرے دل میں اب سنگ و جواہر یکساں ہیں۔‘‘ جس پر میاں میر نے جواب میں فرمایا کہ ’’اگر ایسا ہے تو آپ صوفی ہیں۔” جہانگیر نے کہا کہ، "مجھے اپنا خادم بنا لیں اور خدا کی راہ دکھائیں۔” جس پر میاں میر نے جواب دیا کہ ’’تو مخلوقِ خدا کے لیے اچھا حکمران ہے، اللہ پاک نے تجھے اس عظیم کام پر مامور کیا ہے، کوئی اور شخص جو خلق خدا کا اتنا خیر خواہ، حلیم اور سخی ہو اسے بادشاہ بنا دو، ہم آپ کو فقیر بنا لیں گے۔” یہ بیان سکینۃ الاولیاء کے صفحے 46 میں دیا گیا ہے۔

حوالہ جات: میاں میر۔۔۔شہنشاہوں کے روحانی استاد
(ابراہیم کنبھر)

ترتیب و پیشکش: عمران احسان ۔۔۔۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top