دریا میں گھوڑے ڈال دیئے

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جہاد کے لیے لشکر لے کے نکلے تو راستے میں دریا آگیا لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ دریا کیسے عبور کرینگے حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ دریا کے کنارے کھڑے ہے چہرے پر ذرہ سی بھی پریشانی نہیں سپاہیوں نے پوچھا حضور کرنا کیا ہے فرمانے لگے کچھ بھی نہیں دریا پار کرنا ہے سپاہی کہنے لگے کس طرح پار کرنا ہے آپؓ فرمانے لگے دیکھ لو کس طرح پار ہوتا ہے۔اقبال کہتا ہے
دشت تو دشت دریا بھی نا چھوڑے ہم نے۔۔۔۔
بحرظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے۔۔۔
حضرت سعد بن وقاصؓ دریا کے سامنے کھڑے ہوکے فرمانے لگے او دریا تو حضرت موسی علیہ السلام کے نافرمان قوم کو تو راستہ دیاکرتا تھا اور ہم تو مُحَمَّدﷺ کے فرمانبردار غلام ہے ہمیں کیوں راستہ نہیں دیتا۔
دریا نے راستہ چھوڑ دیا اندر گھوڑے دوڑائے گھوڑے دریا کے اس پار آگئے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرمانے لگے میرے محبوب کے صحابہ تمہاری کوئی چیز تو نہیں رہ گئی دریا میں تو ایک صحابی کہنے لگے میں جلدی سے نکل آیا تو مٹی کا ایک پیالہ گر گیا ہے تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ دریا سے کہنے لگے ہم مسافر بندے ہے سفر پر جارہے ہے کہاں پیالہ ڈھونڈتے پھیرینگے مہربانی کرکے وہ پیالہ واپس کر دے ایک لہر آئی اور پیالہ بھی واپس کر دیا۔
اس واقعہ کو اہل فارس حیرت سے دیکھ رہے تھے اور انگشت بدنداں تھے کہ وہ دریا کی بپھری موجوں کو کس پْرسکون انداز سے عبور کررہے ہیں۔ جب لشکر اسلام نے دریا کو عبور کرلیا اور مدائن میں داخل ہونے لگے تو لوگ چیخ چیخ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے’’ خدا کی قسم دیو آمدند، دیو آمدند یعنی جن آگئے، ہمارا انسانوں سے نہیں بلکہ جنات سے واسطہ ہے‘‘
(تاریخ طبری میں بعینہ یہی الفاظ ہیں)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top