تاریخ اسلام، سلطنتِ عُثمانیہ

گزشتہ اقساط میں ہم پھر دسویں صدی ہجری کے شروع تک پہنچ گئے تھے، سلسلۂ مضامین کو مکمل رکھنے کی غرض سے ہم کو لوٹ کر پھر ساتویں صدی ہجری کے ابتدائی زمانے اور ایشیائے کوچک کے میدانوں میں واپس آنا چاہیے، جب کہ سلطنت عثمانیہ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا، سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی تین سو سال کی تاریخ بیان کرنے کے بعد یعنی دسویں صدی ہجری کے شروع تک پہنچ کر ہم کو غالباً پھر پیچھے واپس ہونا پڑے گا، تاکہ تیمور اور ایران کے صفوی خاندان کی تاریخ سے بھی فارغ ہو کر پھر دسویں صدی ہجری میں داخل ہوں اور سلطنت عثمانیہ کے بقیہ تین سو سال کی تاریخ کسی آئندہ باب میں ختم کریں۔
و باللہ التوفیق۔
ترکوں کے ان غارت گر قبائل نے جو ترکان غز اور غزان کے نام سے مشہور ہیں، خراسان و ایران میں داخل ہوکر سلطنت سلجوقیہ کے اعتبار وقار کو صدمہ پہنچایا تھا، ان ترکان غز کی ترک و تاز کا پتہ ملک چین کے صوبہ منچوریا سے لے کر مراکش تک تاریخوں میں ملتا ہے، انہوں نے سلطان سنجر سلجوقی کو گرفتار کر کے بہت کچھ اپنی دہشت لوگوں کے دلوں میں بٹھادی تھی، مگر جب چنگیز خان نے خروج کیا تو ان کا زور بہت کچھ گھٹ چکا تھا، رہا سہا رعب چنگیزی کشت و خون کے آگے مٹ گیا، پہلے بھی یہ لوگ مختلف قبائل پر منقسم تھے، جب گرم بازاری جاتی رہی تھی اور بھی زیادہ تشتت اور پراگندگی نے ان میں راہ پائی، کوئی قبیلہ مصر کی طرف جا کر وہاں کی فوج میں بھرتی ہوگیا، کوئی شام میں اور کوئی ارمینیا و آذر بائیجان میں رہنے لگا، چونکہ ان کے اندر کوئی ایک زبردست بادشاہ پیدا نہیں ہوا تھا، اس لیے ان لوگوں کے حالات تاریخوں میں بھی بالتفصیل نہیں لکھے گئے، مگر ان کے اندر عرصہ دراز تک خراسان و ایران میں فاتحانہ حیثیت سے رہنے کے سبب تہذیب و شائستگی نے ضرور ترقی کی تھی اور اولوالعزمی و بلند ہمتی کی شان ان کے ہر قبیلہ اور ہر خاندان میں موجود تھی، حکومت و فتح مندی کے عالم میں بھی انہوں نے اپنے ریوڑوں کی محبت نہیں چھوڑی تھی، اس لیے اب خروج چنگیزی کے وقت کچھ تو چنگیز خان کی فوج میں داخل ہو گئے اور اکثر خراسان و ایران اور دوسرے ملکوں کی سر سبز و شاداب چراگاہوں اور جنگلوں میں رہنے لگے، انہی ترکان غز کا ایک قبیلہ جو خراسان میں اقامت گزیں تھا۔
ساتویں صدی ہجری کے شروع ہوتے ہی جب کہ چنگیزی مغلوں کی حملہ آوری خراسان پر شروع ہوئی، خراسان سے روانہ ہو کر آرمینیا کے علاقے میں چلا آیا اور بیس پچیس سال تک آرمینیا میں مقیم رہا، اس قبیلہ کے سردار کا نام سلیمان خان تھا اور اس کے ساتھی سلجوقیوں کی طرح نہایت سچے مسلمان تھے، سلیمان خان کی قابلیت اور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اس کا سلوک دیکھ کر نتیجہ یہ ہوا کہ آرمینیا میں ترکان غز کے اور بھی آوارہ و پریشان پھرنے والے افراد آ آ کر اس کے گرد جمع ہو گئے اور اس جمعیت میں معتدبہ اضافہ ہوتا رہا، یہ وہ زمانہ تھا کہ چنگیز خان کی ترک و تاز کے سبب ملکوں کا امن و امان معرض خطر میں تھا اور ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال و اموال کی حفاظت کے لیے اپنے ہی قوت بازو پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا اور ہمہ اوقات آفتوں اور مصیبتوں کے مقابلہ پر مستعد رہنا ازبس ضروری تھا، لہٰذا سلیمان خان کے گروہ کو بھی جو آرمینیا کے پہاڑوں میں اقامت گزین تھا، اپنی طاقت وعصبیت کے محفوظ رکھنے کا خیال رہتا تھا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ آرمینیا کے زمانہ قیام میں جب کہ ہر طرف بربادی اور ہلاکت برپا تھی، سلیمان خان نے اپنی طاقت کو خوب بڑھایا اور اپنے گروہ کو بلا ضرورت نقصان پہنچنے سے بچایا، دولتِ خوارزم شاہیہ کی بربادی نے اور بھی سلیمان خان کو اس بات کا موقع دیا کہ وہ جنگجو افراد اور جنگجوئی کے سامانوں کو اپنے گرد آزادانہ فراہم کرلے۔
ابھی چنگیز خان کے مرنے میں تین سال باقی تھے کہ اس نے 621ھ میں ایک زبردست فوج سلجوقیوں کی اس سلطنت پر جس کا دارالسلطنت قونیہ تھا، حملہ آوری کے لیے روانہ کی، قونیہ میں علاو الدین کیقبا سلجوقی فرماں روا تھا، پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس سلجوقی حکومت کے فرماں رواؤں یعنی سلاجقہ روم کو ہمیشہ رومیوں یعنی عیسائیوں سے برسر پیکار رہنا پڑتا تھا، اب امتداد زمانہ سے یہ سلطنت بہت ہی کمزور ہو چکی تھی، سلیمان خان کو جب یہ خبر پہنچی کہ مغلوں نے علاؤ الدین کیقباد پر حملہ کیا ہے تو اس کو بہت ملال ہوا، کیونکہ قونیہ کا سلطان مسلمان اور مغل کافر تھے، قونیہ کی سلطنت عیسائیوں کے مقابلے میں ہمیشہ برسر جہاد رہتی تھی اور مغلوں نے عالم اسلام کو تہہ و بالا کر ڈالا تھا، سلیمان خان نے علاؤ الدین کیقباد کو امداد پہنچانے اور اس لڑائی میں شریک ہو کر شہادت حاصل کرنے کا بہترین موقع سمجھ کر اپنے قبیلہ کو کوچ کی تیاری کا حکم دیا، سلیمان خان کی اس جمعیت کی صحیح تعداد تو نہیں معلوم ہو سکی، مگر سلیمان خان نے اس جمعیت کا ایک حصہ جو اپنے بیٹے ارطغرل کو دے کر بطور ہر اول آگے روانہ کیا تھا، اس کی تعداد 444 تھی۔
دنیا کے بڑے بڑے اور اہم واقعات میں جس طرح حیرت انگیز طور پر جس اتفاق کا معائنہ ہوتا رہا ہے، اسی طرح اس موقع پر بھی عجیب حسن اتفاق پیش آیا، ادھر آرمینیا کی جانب سے یہ مجاہدین کی فوج جا رہی تھی، ادھر مغلوں کی فوج علاؤ الدین کیقباد سلجوقی کی فوج کے مقابل پہنچ گئی تھی، عین اس وقت جب کہ سلجوقی لشکر اور مغلوں کی فوج میں ہنگامہ کارزار گرم تھا اور مغل بہت جلد علاؤ الدین کے لشکر کو مغلوب کیا چاہتے تھے، سلیمان خان کا بیٹا ارطغرل اپنے ہمراہی دستے کو لیے ہوئے نمودار ہوا، اس نے دیکھا کہ دو فوجیں برسرِ پیکار ہیں اور ایک فوج بہت جلد مغلوب ہوکر میدان کو خالی کرنے والی ہے، ارطغرل کو معلوم نہ تھا کہ کہ دونوں لڑنے والے کون کون ہیں؟ لیکن اس نے یہی مناسب سمجھا کہ کمزور فریق کی مدد کروں، چنانچہ ارطغرل اپنے 444 ہمراہیوں کو لےکر کمزرو فریق کی طرف سے زبردست فریق پر ٹوٹ پڑا، یہ حملہ اس شدت اور بےجگری کے ساتھ کیا گیا کہ مغلوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان میں اپنی بہت سی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
علاؤ الدین کیقباد سلجوقی ذرا دیر پہلے اپنی شکست اور ہلاکت کو یقینی سمجھ رہا تھا، اس غیر مترقبہ امداد اور فتح کو دیکھ کر بہت مسرور ہوا اور میدان جنگ میں ارطغرل سے جو فرشتہ رحمت بن کر نمودار ہوا تھا، بغل گیر ہوکر ملا، ارطغرل کو بھی بےحد مسرت حاصل ہوئی کہ وہ عین وقت پر پہنچا اور جس مقصد کے لیے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا وہ بحسن و خوبی حاصل ہو گیا، ابھی ارطغرل اور علاؤ الدین کیقباد اس مسرت و شادمانی کا لطف اٹھا رہے تھے کہ سلیمان خان بھی اپنی جمعیت کے ساتھ اسی میدان میں پہنچ گیا، علاؤ الدین سلجوقی نے سلیمان خان اور اس کے بیٹے ارطغرل کو خلعتِ گراں بہا عطا کیے، ارطغرل کو شہر انگورہ کے قریب جاگیر عطا کی اور سلیمان خان کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا۔
علاؤ الدین سلجوقی کے فہم و فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے ارطغرل کو جاگیر عطا کرنے کے لیے بہترین علاقہ کا انتخاب کیا، قونیہ کی سلطنت پہلے بہت وسیع تھی، اب صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ ایشیائے کوچک کے شمالی و مغربی علاقے پر رومیوں نے چیرہ دست ہوکر قبضہ کرلیا تھا اور وہ بتدریج اس سلجوقی سلطنت کے حدود کو محدود کرتے اور آگے بڑھتے آتے تھے، دوسری طرف ومشرقی علاقے مغلوں کی دست بردنے جدا کر لیے تھے اور وہ دم بدم آگے بڑھ رہے تھے، اس طرح سلطنت قونیہ دو پاٹوں کے درمیان پسی جا رہی تھی اور محدود ہوتے ہوتے ایک ریاست کی شکل میں تبدیل ہوگئی تھی، جس کے بہت جلد فنا ہونے کی توقع تھی، اس بہادر گروہ اور ان بہادر سرداروں کو دیکھ کر علاؤ الدین نے سلیمان کے بیٹے کو ایسے موقع پر جاگیردی جو رومی سلطنت کی سرحد پر واقع تھا اور باپ کو فوج کا سپہ سالار بنا کر مشرق کی جانب مغلوں کی روک تھام پر مامور کیا، چند روز کے بعد ارطغرل نے رومیوں کی ایک فوج کو شکستِ فاش دے کر اپنی جاگیر کو رومی علاقہ کی طرف وسیع کیا اور اس حسنِ خدمت کے صلے میں علاؤ الدین سلجوقی نے بھی اپنی طرف سے اور علاقہ اسی نواح میں عطا فرما کر ارطغرل کی طاقت اور علاقے کو بڑھادیا اور ارطغرل کے اس طرح طاقتور ہونے سے رومی سرحد کا خطرہ بالکل جاتا رہا، مگر چند روز کے بعد سلیمان خان جو دریائے فرات کے کنارے مع فوج سفر کررہا تھا اور مغلوں کے خارج کرنے میں مصروف تھا، دریائے فرات کو عبور کرتے ہوئے دریا میں غرق ہوکر راہی ملک بقا ہوا، ارطغرل اپنے علاقے پر حکمران رہا اور دم بہ دم اپنی طاقت کو ترقی دینے میں مصروف رہا، چونکہ ارطغرل عیسائیوں کے ساتھ مسلسل مصروفِ جنگ اور عیسائیوں کے علاقے چھین چھین کر اپنے ملک وسیع کر رہا تھا، لہٰذا اس کا اس نواح میں طاقتور ہونا شاہ قونیہ کے لیے بہت کچھ باعثِ اطمینان تھا اور وہ ارطغرل کی بڑھتی ہوئی طاقت کو بہ نظر اطمینان معائنہ کرتا تھا۔
634ھ میں علاؤ الدین کیقباد کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا غیاث الدین کیخسرو قونیہ میں تخت نشین ہوا، غیاث الدین کیخسرو کو مغلوں نے اپنی بار بار کی حملہ آوری سے بہت تنگ کیا اور 641ھ میں غیاث الدین کیخسرو نے مغلوں کو خراج دینا منظور کرلیا، سلطنتِ قونیہ کے اس طرح باج گزار ہونے کا ارطغرل پر کوئی اثر نہ پڑا، کیونکہ وہ ایک ایسے صوبہ کا گورنر اور فرماں روا تھا جو بظاہر مغلوں کی دست برد سے محفوظ و مامون تھا، مغلوں کو اس کے بعد ایشیائے کوچک کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی فرصت بھی نہ تھی، 656ھ میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی خلافت عباسیہ کا چراغ گل کیا۔
657ھ میں ارطغرل جاگیردار انگورہ کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام عثمان خان رکھا گیا، یہی وہ عثمان خان ہے جس کے نام سے ترکوں کے بادشاہوں کو سلاطین عثمانیہ کہا گیا، 687ھ میں جب کہ عثمان کی عمر تیس سال کی تھی، ارطغرل نے وفات پائی اور شاہ قونیہ نے ارطغرل کا تمام علاقہ عثمان کے نام مسلم رکھ کر سندِ حکومت بھیج دی، عثمان خان کی قابلیتوں سے واقف ہوکر اسی سال غیاث الدین کیخسرو بادشاہ قونیہ نے عثمان خان کو اپنی فوج کا رئیس العسکر بناکر اپنی بیٹی کی شادی عثمان خان سے کردی، اب عثمان خان شہر قونیہ میں رہنے لگا اور بہت جلد وزیر اعظم اور مدار المہام سلطنت کے مرتبہ کو پہنچ گیا، حتیٰ کہ جمعہ کے دن قونیہ کی جامع مسجد میں عثمان خان ہی بجائے غیاث الدین کیخسرو کے خطبہ بھی سنانے لگا۔
*تاریخ اسلام۔ جلد ③، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب*

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top